سرزمین دکن شروع سے ہی مسلم سلاطین کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں اورنگ آباد علماء کرام، مشائخ عظام اور علوم و فنون کے ماہرین کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ اسی زمانے میں ملک عنبر کی تعمیر کردہ جامع مسجد کی توسیع اورنگ زیب کے حکم سے عمل میں آئی اور اس کے اطراف کمرے تعمیر کیے گئے جہاں دکن کی اولین وفقہ و حدیث کی تحقیق کا مرکز قائم ہوا اور یہیں فتاوی عالمگیری کی تدوین کے ابتدائی خاکہ نے جنم لیا۔ ایک مدت تک جامع مسجد اور اس کے کمروں کی فضا قال اللہ اور قال الرسول کی روح پرور صداؤں سے معمور رہی۔ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد ایک عرصہ تک سلطنت آصفیہ قائم رہی لیکن علمی و دینی میدان میں جو انحطاط پیدا ہوا تھا وہ بدستور باقی رہی بلکہ بڑھتا ہی گیا۔ خدا فراموشی، دین بیزاری اور عیش کوشی کی موجیں بڑھتی رہیں یہاں تک کہ سلطنت آصفیہ کا چراغ بھی گل ہوگیا اور ہندوستان میں مسلمانوں کے دور اقتدار کا آفتاب گہن آلود ہوگیا۔ دنیوی وجاہتیں اور مناصب جو مسلمانوں کی آخری مرکز توجہ اور حاصل حیات قرار پائے تھے اس کے حصول کے مواقع بھی جاتے رہے۔ دل کی دنیا تو مدتوں سے ویران پڑی تھی اب زندگی کے بھی لالے پڑنے لگے۔ ہر طرف یاس و قنوطیت کی فرمانروائی تھی کہ بیسویں صدی کے وسط میں رحمت الٰہی جوش میں آئی اور دعوت و تبلیغ نے ہندوستان کے ساتھ ساتھ دکن کے مسلمانوں میں بھی دینی بیداری اور زندگی کی ایک نئی روح پیدا کردی۔ اس دینی دعوت کی وجہ سے مسجدیں آباد ہونے لگیں اوردل کی دنیا کی آبیاری کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کی تاسیس
سرزمین دکن جس کی گود میں اورنگ آباد جیسا تاریخی شہر آباد ہے، جس کے نشیب و فراز کے زریں نقوش آج بھی تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔ ملوک ہوں یا امراء، علماء ہوں یا صلحاء، ادباء ہوں یا شعراء، یہ روایت شکن سرزمین سبھوں کیلئے سکون قلب و نظر کا سامان بنی۔ یہ فخر روزگار تاریخی مقام جس کے بعض آثار کی تاریخ قبل مسیح تک پہنچتی ہے، اس کی گود ہر قسم کے لعل و جواہر سے مالامال تھی لیکن ایک در نایاب اور گوہر کمیاب کیلئے شکوہ کناں تھی۔ اس کی یہ دیرینہ آرزو اور قلبی تمنا اس طرح شرمندہ تعبیر ہوئی کہ ۱۰؍ شوال ۱۳۷۸ھ مطابق ۱۹؍ اپریل ۱۹۵۹ء کو شہر اورنگ آباد کی تاریخی اور عظیم جامع مسجد (جو اپنے مسقف حصے کے اعتبار سے ہندوستان کی سب سے بڑی مسجد ہے) میں حضرت مولانا محمد سعید خان کے ہاتھوں جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کی تاسیس عمل میں آئی۔
جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم کا عالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے باضابطہ الحاق ہے اور ابتداء سے وہیں کے نصاب کے مطابق اعلیٰ درجات تک تعلیم دی جاتی ہے۔ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی سرپرستی کا اس جامعہ کو شرف حاصل ہے۔
اغراض اور مقاصد
- اسلامی مزاج کے حامل ایسے علماء تیار کرنا جو دینی تفقہ، روح شریعت اور علمی بصیرت کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تقاضوں سے واقف ہوں۔
- طلباء میں اتباع کتاب و سنت، احساس ذمہ داری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا
- غیر اسلامی تحریکوں سے طلباء کو واقف کروانا اور اسلام پر ان کے اعتراضات کے تشفی بخش جوابات علمی انداز میں دینے کی عملی مشق کرانا۔
- درسیات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء میں دعوت و عزیمت کی صحیح اسپرٹ پیدا کرانا۔
- طلباء کی ایسی تربیت کہ ان کے اندر آفاقیت پیدا ہو، اور وہ احساس کمتری کا شکار ہونے کے بجائے دوسروں پر اثر انداز ہوسکیں۔
- طلباء میں اردو، عربی اور مقامی زبانوں میں تحریر و تقریر کی صلاحیت پیدا کرنا۔
- ایسے جید حفاظ اور قراء پیدا کرنا جن سے علاقہ کی ضروریات کی تکمیل ہوسکے۔
- مسلم معاشرہ کو غیر اسلامی رسوم و رواج، شرک و بدعت اور اوہام و خرافات کی
خرابیوں سے روشناس کرانا اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک صالح اور صحت
مند معاشرہ کی تشکیل دینا۔
- مسائل حاضرہ پر وقیع علمی کتابوں کی تصنیف و تالیف۔
- تحریر و تقریر کے ذریعہ عوام کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرنا۔
- اسلام کی ابدی تعلیمات کو مختلف زبانوں کے ذریعہ عام کرنا۔
- مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی دینی تعلیم و تربیت کیلئے ملحقہ مکاتب کی تاسیس۔
- تعلیم بالغان کیلئے شبینہ مدارس کا قیام۔
جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم ایک نظر میں
سن تاسیس: ۱۰ شوال المکرم ۱۳۷۸ھ مطابق ۱۹ اپریل ۱۹۵۹ء
بانی جامعہ: داعی حق الحاج حضرت مولانا محمد سعید خان صاحب رحمة اللہ علیہ
سرپرست اعلیٰ: حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی (ناظم ندوة العلماء لکھنو)
صدر مجلس عاملہ: الحاج عبدالجبار حاجی محمد غوث صاحب
ناظم جامعہ: حضرت مولاناعبدالوحید حلیمی ندوی مدظلہ العالی
جامع مسجد تاریخ کے آئینہ میں
بانی شہر ملک عنبر کے عہد حکومت میں اس کے حکم سے 1612 میں شہر کی پہلی جامع مسجد تعمیر ہوئی۔ جامع مسجد اورنگ آباد دکن کی مسجدوں میں فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس کی پانچ کمانیں شمالا و جنوبا اور تین کمانیں شرقا و غربا ملک عنبر نے تعمیر کروائی تھیں۔ بعد میں عہد عالمگیری کے شمالا و جنوبا تین تین اور شرقا و غربا دو کمانوں کے اضافہ کے ذریعہ اس کی توسیع عمل میں آئی۔ اس طرح آج یہ مسجد کل گیارہ کمانوں اور پانچ وسیع و عریض درجوں پر مشتمل ہے۔ پوری مسجد ۷۲ ستونوں کے سہارے کھڑی ہے جن کے ذریعہ چھ فٹ دبیز چھت کی کمانوں (محرابوں) کو سہارا دیا گیا ہے، ستون اور گنبد کی چھت کے درمیان محراب ڈائمنڈ کٹ طرز کا ہے، چھت اندرونی طور پر گنبد نما ہے لیکن اوپر بالکل مسطح ہے۔ چھت پر سات خوبصورت گنبد ہیں جو حجم کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔ درمیانی گنبد تمام گنبدوں میں بڑا اور نہایت خوبصورت ہے۔
مسجد کے اوپر جانے کیلئے صرف ایک ہی راستہ ہے، منبر کے پاس بہت خوبصورت محراب ہے، محراب میں کتبہ پر آیتیں کندہ ہیں۔ یہ کتبہ نہ صرف دکن بلکہ ہندوستان کی دیگر مسجدوں میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ مشرقی سمت کی گیارہ کمانیں کافی اونچی ہیں، کمانوں پر پھول پتیوں کے ڈیزائن بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مشرقی سمت میں دونوں طرف دو مینار ہیں جو اپنی سادگی کے باوجود بے حد خوبصورت ہیں۔ مسجد کے سامنے وسیع و عریض صحن ہے جس کے شمال جنوب اور مشرق میں چھیالیس یکساں کمرے اور ان کے درمیان تین دروازے بنائے گئے ہیں۔ مسجد کے صحن میں ایک بڑا حوض بھی ہے جسے ابتداء میں نہر عنبری سے پائپ کے ذریعہ پانی فراہم کیا جاتا تھا۔
عہد عالمگیری میں جامع مسجد کے کمرہ نمبر ۳۰ اور دیگر حجروں میں فتاوی عالمگیری کی ترتیب و تدوین کیلئے علماء اور مفتی حضرات مقیم رہے ہیں جن میں اورنگ زیب عالمگیر کے استاذ ملا جیون اور ملا نظام الدین بھی شامل تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دہلی سفر کے موقع پر یہ علماء بھی ان کے ہمرکاب ہوگئے اور ان کے بعد جامع مسجد کے ان حجروں کو حضرت جان اللہ باب اللہ (جالنہ) نے بحیثیت خانقاہ پچاس ساٹھ سالوں تک قال اللہ و قال الرسول کی صداؤں سے آباد رکھا۔ یہ حجرے اکابر علماء و صوفیائے کرام کی قیامگاہ بھی رہے جن میں حیدر آباد کے جناب یوسف صاحب، فوجی جناب شریف صاحب، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی، حضرت مولانا محمد صدیق باندوی، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی، حضرت مولانا قاری طیب قاسمی، حضرت مولانا اسعد مدنی، حضرت مولانا معین اللہ ندوی، ڈاکٹر مولانا سید عبداللہ عباس ندوی، حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی، حضرت مولانا عبداللہ حسنی، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم، ڈاکٹر مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی دامت برکاتہم قابل ذکر ہیں۔
جامع مسجد کے در و دیوار، منبر و محراب عرصہ دراز تک حافظ عبدالستار صاحب اور ان کے بعد مولانا اجلال احمد صاحب کی قرأت اور تلاوت سے معمور رہے اور اب اس وقت ان منبر و محراب کو حافظ ذاکر صاحب ملی اپنی مسحور کن آواز سے شاداب رکھے ہوئے ہیں۔ امام عبدالستار صاحب کے دور امامت سے زیادہ طویل دور میں مؤذن جامع مسجد الحاج نور محمد صاحب پنج وقتہ اذانوں اور تکبیرات کا صدا اپنے مخصوص انداز اور لب و لہجہ میں میناروں سے بلند کرتے رہے، تاریخی جامع مسجد کے یہ دو قدیم ستون قلندرانہ صفت اور سادہ لوحی میں اپنی مثال آپ تھے۔
طول زمان اور گردش لیل و نہار کے اثرات سے جب جامع مسجد کی چھت بوسیدہ ہوکر ٹپکنے لگی تو الحاج عبدالعزیز صاحب انجینئر نے تن تنہا ممتاز انجینئر حضرات سے مشورہ کرکے چھت کی مرمت اور واٹر پروفنگ کا کام اپنی نگرانی میں مکمل کروایا۔ چار صدیوں بعد جامع مسجد کا اندرونی حصہ اور اس کے در و دیوار اور منبر و محراب بھی منتظر تھے کہ ان پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔ اس عظیم مقصد کیلئے اللہ نے جامعہ کے معزز رکن الحاج اسلم خان صاحب اور ان کے رفیق محترم جناب انور سلیم صاحب کو منتخب فرمایا، ان دونوں حضرات نے ماہر آرکیٹیکٹ اور تجربہ کار معماروں کے توسط سے مسجد کے ستونوں اور در و دیوار میں گرینائٹ نصب کرکے مسجد کو حیات نو بخشی، ماہر کاریگروں نے داغ دوزی اور پلاسٹر کے دوران قدیم طرز تعمیر کو باقی رکھا تاکہ اس کے مطابق ایکو سسٹم باقی رہے، جدید طرز پر لائٹ، پنکھوں اور ساؤنڈ کا نظام قائم کیا گیا۔ تمام گیارہ کمانوں میں جدید طرز پر کشادہ دروازے نصب کئے گئے۔ یہ کام چونکہ بہت نازک اور کافی بڑا تھا اس لئے اس کی تکمیل میں کئی سال لگ گئے، نیز اس کا تعمیری بجٹ بھی بہت زیادہ تھا جو ان دونوں حضرات نے اپنی جیب خاص سے پورا کیا۔
اسی طرح دیگر مخیر حضرات بھی حسب ضرورت ٹھنڈے پانی، قالین، جائے نماز، چٹائیوں اور قرآن پاک رکھنے کیلئے بکس، ریکس اور نمازیوں کیلئے کرسیوں کا نظم کرتے رہے۔ شہر کے مخیر حضرات کے تعاون سے جامع مسجد کے حجروں کی مرمت اور دروازوں کی داغ دوزی کا عظیم کام انجام دیا گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان تمام مخیر حضرات کو اپنی شایان شان اور بہتر سے بہتر اجر وثواب عطا فرمائے اور ان اعمال کو اپنی خوشنودی اور نجات کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)